Life of Harazrat Muhammad sallaho alaihi wassalm
حياتُ النبى ﷺ
کے موضوع پر احادیث
از قلم
ابوامين سيد محمد مبین رضا
عطاری عفی عنہ
درود شریف کی فضیلت
اللہ پاک کے آخری نبی صلى الله عليه وسلم پر درود پاک پڑھنے کے بیشمار فضائل ہیں ان میں سے ایک فرمان مصطفى عليه التحية والثناء جس نے مجھ پر دس مرتبه صبح اور دس مرتبه شام درودپاک پڑھا اسے قیامت کے دن میری شفاعت ملے گی۔۔
مدنی) پنج سوره (ص (263
کچھ لوگ زندہ ھونے کے باوجود مُردوں سے بدتر زندگی گزار رھے ھوتے ھیں اور وہ یوں کہ
صلى الله وہ اللہ پاک اور رسول محتشم نورِ مجسم صلى الله عليه وسلم پر وہ بات باندھنے لگے جاتے ھیں جن باتوں کو ایسا کہا ھی گیا نہیں ھوتا ۔
الله پاک و رسول الله صلى الله عليه وسلم نے کہاں فرمایا کہ انبیاء کرام علیہم السلام و اولیاء کاملین رحمهم الله المبين مرنے کے بعد بالکل هی مرده هوجاتے
ھیں ان میں جان رھتی ھی نہیں یہ بھی اور
لوگوں کی طرح مردہ و بےجان ھو جاتے ھیں جیسا کہ کہا جاتا ھے محاورہ بنا ھوا ھے۔۔
مرگیا مردود نہ فاتحہ نہ درود
یاد رکھیں جیسا کہ حیات و موت هر ایک کی ایک جیسی تھی اور نہ ھی ھے زندگی گزارنے پر ھی آپ کچھ نہ کچھ کمینٹس پاس کرتے ھیں کہ ہاں بھئی فلاں بندے نے نیکیوں بھری زندگی گزاری نیک اعمال کئے اللہ پاک و رسول الله الله الله کو راضی کیا اور ان ھی کے فرامین پر زندگی
گزاری
ارے یار اس کی موت نماز کی حالت میں آئی ارے یار قرآن پڑھتے پڑھتے تلاوت و نعتیں پڑھتے یا سُنتے سنتے دنیا سے چلا گیا ارے بڑا خوش
نصیب ھے ارے یار اس کو غسل دیتے وقت كيسا مسكرا رها تھا کیسا کھلا کھلا چہرہ تھا جنازے میں بڑی نیک لوگ شامل تھے یار وہ بخش هوا
تعداد
میں
شخص تھا وغيره وغيره
کتابوں میں یہ بات لکھی ھوئی ھے کہ ایک تابعی بزرگ جن کا نام حضرتِ سیدنا ثابت بنانی رضى الله تھے وصال کے بعد آپکے ساتھ یہ معاملہ پیش آیا کہ جب آپ کو دفنا چکے تو آخری اینٹ کہیں قبر میں گر گئی۔۔۔
عنہ
اُٹھانے والے نے جب اس اینٹ کو اُٹھانا چاھا نیچے جُھک کر تو کیا دیکھتے ھیں کہ جن کو ابھی ابھی قبر میں اتارا گیا لٹا دیا گیا وہ سچ مُچ اپنی قبر میں کھڑے ھو کر نماز پڑھ رھے
تھے۔۔
ان کے گھر والوں سے ان کا معمول پوچھا گیا تو
بتايا ان کی شہزادی صاحبہ نے کہ وہ کثرت تلاوت قرآن پاک کیا کرتے تھے اور یہ دعا مانگا کرتے تھے کہ یا اللہ پاک اگر کسی کو تو مرنے کے بعد قبر میں نماز پڑھنی کی سعادت دے تو
مجھے بھی دینا۔۔۔
یوں ان بزرگ تابعی بزرگ حضرتِ سیدنا ثابت
بنانی رضی اللہ عنہ کی دعا مستجاب ھوئی۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے۔۔۔
زمین میلی نہیں ہوتی دھن میلا نہیں ہوتا خدا کے اولیاء ۔۔۔۔کا تو کفن میلا نہیں ہوتا
ایسے واقعات تو بھرے پڑے ہیں احادیث میں بھی ایسے واقعات پڑھنے کو مل سکتے ھیں مگر عقیدہ اچھا ھوگا تو هی یہ باتیں سمجھ یں آسکیں گی وگرنہ شیطان بھی تو ساتھ ھی
ھے ورغلانے کے لئے۔۔۔
یہ انہی کو بہکا سکتا ھے جو اسی کی ڈگر پر چلنے والے ھوتے ھیں وگرنہ ابھی جو واقعہ ہوا ھے ناں اسلام میں چلیں ایک اور بات آپ کو
ھی
بتاتا چلوں وہ یہ کہ
صلى الله عل
ایک بار کی بات ھے نبئ کریم صلى الله عليه وسلم اپنے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ مسجدِ نبوی على صاحبها الصلوۃ والسلام کے باھر تھے کہ ایک جنازه گزرا جنازے میں شریک لوگ کہہ رھے تھے کہ یار یہ بندہ بڑا ھی بُرا بندہ تھا ھر کوئی اس
سے
تنگ تھا ماں باپ کا نافرمان تھا ایسی گفتگو
چل رھی تھی۔۔۔
کہ رسول مقبول صلى الله عليه وسلم نے فرمايا وجبت واجب هو گئی۔۔۔۔ پھر کچھ دیر
گزری ایک اور جنازہ گزرا اس کے شرکاء پہلے والے جنازے کے برعکس گفتگو کر رھے تھے کہ یہ بڑا ھی نیک بندہ تھا نمازی پرہیز گار تھا ماں
باپ کا خیال رکھنے والا وغیرہ وغیرہ۔ ایسا کہہ رھے لوگ تو نبی پاک رسول مقبول بی بی آمنہ کے پھول صلى الله عليه وسلم نے فرمایا وجبت ، واجب
ہوگئی صحابه کرام میں سے کسی نے عرض کی فداک أمى و ابی یا رسول الله صلى الله عليه وسلم ہمارے ماں باپ آپ پر قربان پہلے پر کیا اور دوسرے جنازے پر کیا
چیز واجب ھو گئی۔۔۔
هو فرمایا پہلے پر جہنم اور دوسرے پر جنت واجب ھو گئی۔۔۔ پہلے جنازے کے شرکاء نے جو کہا اس کی برائی بیان کی تو لوگوں کی زبان پر جو تھا اللہ پاک نے ویسا ہی کردیا اور دوسرے جنازے
کے شرکاء کی زبان پر جو الفاظ تھے اللہ پاک نے ويسا هي معاملہ فرما دیا ۔۔۔
دیا۔۔۔
پہلے پر دوزخ اور دوسرے پر جنت واجب کردی
یہ واقعہ بخاری شریف میں بھی موجود ہے۔ جیساکہ بخاری شریف میں حضرت انس بن مالک
رَضِيَ اللهُ عَنْهُ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام
ء رَضِيَ اللهُ تَعَالٰی عَنْہ کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو انہوں نے اس کی تعریف کی نبی پاک صلى الله عليه وسلم نے فرمایا وَاجَبَت واجب ہوگئی، پھر دوسرا جنازہ گزرا تو صحابہ کرام رَضِيَ اللهُ عَنْہ نے اسکی برائی بیان کی۔ حضور اقدس صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ” وَاجَبَت
وس
واجب ہوگئی۔ حضرت عمر فاروق رَضِيَ اللهُ تَعَالَى
صلى الله. عَنْہ نے دریافت کیا یارسول الله کیا چیز واجب ہوگئی؟ ارشاد فرمایا: پہلے جنازے کی تم نے تعریف كى أسکے لئے جنت واجب ہوگئی اور دوسرے کی تم نے برائی بیان کی، اُسکے لئے دوزخ واجب ہوگئی تم زمین میں الله تعالیٰ کے گواہ ہو ۔ (بخاری،کتاب الجنائز، باب ثناء الناس على الميت ۱ / ۴۶۰ ، الحدیث: ۱۳۶۷
اب آگے بڑھتے ھیں کہ اللہ پاک نے کیسی کیسی خوبیاں عطا فرمائیں اپنے پیارے اور آخری نبی
حضور اکرم نور مجسم صلى الله عليه وسلم کو ۔۔
—
وصال باکمال کے بعد بھی درود پہنچتا ھے
جیسا کہ
حضرت اوس بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت
صلى الله ھے کہ حضور نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : بیشک
وستلم
تمہارے دنوں میں سے جمعہ کا دن سب سے بہتر ھے اس دن حضرت آدم علیہ السلام پیدا ھوئے
اور اسی دن انہوں نے وفات پائی اور اسی دن صور پھونکا جائے گا۔۔۔
اور اسی دن سخت آواز ظاهر هوگی پس اس دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ھے صحابہ کرام رضی
الله عنہم نے عرض کی:
صلى الله يارسول الله صلى الله عليه وسلم همارا درود آپکے وصال کے بعد
وسلم
آپ کو کیسے پیش کیا جائے گا؟ کیا آپ کا جسدِ
صلى الله
مبارک خاک فرمایانہیں ایسا نہیں ھے) اللہ پاک نے زمین پر انبیاء کرام علیھم السلام کے جسموں کو کھانا یا کسی بھی قسم کا نقصان پہنچانا حرام فرما
نہیں مل چکا ھو گا؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے
میں
دیا ھے۔“
ایک روایت میں ھے کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ اللہ بزرگ و برتر نے زمین پر حرام قرار دیا ھے کہ وہ وه انبياء كرام عليهم السلام جسموں کو کھائے۔
اس حدیث کو امام ابوداود، نسائی، ابن ماجہ، ،دارمی احمدابن خزیمہ اور ابن حبان نے روایت کیا ھے امام حاکم نے فرمایایہ حدیث امام بخاری
کی شرائط پر صحیح ھے.
.2 حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ روایت ہے کہ
صلى الله
علم وس
نے فرمایا:
حضوراکرم شافع أمم جمعہ کے دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو یہ یوم مشہود یعنی میری بارگاہ میں فرشتوں کی خصوصی حاضری کا دن)ھےاس دن فرشتے
خصوصی طور پر کثرت سے میری میں حاضر ھوتے ہیں جب کوئی شخص مجھ پر
بارگاه
درود بھیجتا ھےتو اس کے فارغ ھونے تک اُس کا
درود میرے سامنے پیش کر دیا جاتا ہے۔ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا :
صلى الله يارسول اللہ صلى الله عليه وسلم اور آپ کے وصال کے بعد کیا
وستله
الله ھو گا ؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : ہاں میری (ظاهری وفات کے بعد بھی میرے سامنے اسی طرح پیش کیا جائے گا کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کے لیے انبیائے کرام علیھم السلام کے جسموں کا کھانا
حرام کر دیا ہے۔
دوپس
الله پاک کا نبی زندہ ھوتا ھے اور اُسے رزق
بھی عطا کیا جاتا ہے۔”
اس حدیث کو ابن ماجہ نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ھے امام منذری نے فرمایا امام ابن ماجہ نے جید اسناد کے ساتھ روایت کیا ھے۔۔ سيدى اعلیحضرت مجدد اعظم الشاه امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ اپنے نعتیہ دیوان
میں
فرماتے ہیں
تو زندہ ہے والله تو زندہ ہے والله
میرے چشمِ عالم سے چھپ جانے والے
رُوح مبارکہ کا بار بار لوٹا دینے کا بیان 3 حضرت ابوهریره رضی اللہ عنہ سے مروی ھے
عليه
صلى الله کہ حضور نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا :
ميرى) أمت
میں سے کوئی شخص ایسا نہیں جو مجھ پر سلام بھیجے مگر اللہ پاک نے مجھ پر میری روح واپس لوٹا دی ھے یہاں تک کہ میں هر سلام کرنے والے کو (اُس کے سلام کا جواب
دیتا ھوں۔ اس حدیث کو ابوداود أحمد، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ھے نیز امام عسقلانی نے فرمایا اسے امام ابوداؤد نے روایت کیا ھے اور اس کے راوی ثقہ
ہیں۔
.4. أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، باب
من فضائل موسى عليه السلام، 4/1845، الرقم : 2375 ، والنسائي في السنن، كتاب قيام الليل وتطوع
النهار، باب ذكر صلاة نبي ا الله موسى عليه السلام 3/215 ، الرقم: 161.1632، وأيضًا في السنن الكبرى،
1 / 419، الرقم 1328.
ھے
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی کہ حضورنبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : معراج کی شب میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا (اور) هداب کی ایک روایت کے مطابق سرخ ٹیلے کے پاس سے میرا گزر ھوا تومیں نے دیکھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قبر میں مصروف نماز تھے۔” اس حدیث کو امام مسلم، نسائی، احمد اور ابن
ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
صلى
کھڑے
5 . عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكِ رضى الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُولُ الله الأنبياء أحياء فِي قُبُورِهِم يُصَلُّونَ . أخرجه أبويعلى في المسند، 6 / 147، الرقم : 3425، وابن عدي في الكامل، 2 / 327 ، الرقم : 460 ، والديلمي مسند الفردوس ، 1/119، الرقم : 403، والعسقلاني
في
في فتح الباري 6 / 487 حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے کہ حضور نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: انبیاء کرام
عليهم السلام اپنی اپنی قبروں میں حیات ہیں
ہیں
اور نماز بھی پڑھتے ہیں۔“
اسے امام بیہقی نے صحیح قرار دیاہے اور حیاتِ انبیاء علیہم السلام پر انہوں نے ایک جزء (صحیح احادیث کی مختصر سی کتاب بھی تالیف کی ھے اسی طرح امام زرقانی نے بھی
فرمایا کہ امام بیہقی نے حیات انبیاء علیہم السلام پر ایک نہایت لطیف کتاب تالیف کی ھے جس میں انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کی مرفوع روایات اسنادِ صحیح کے ساتھ بیان کی
ہیں۔
أخْرَجَهُ. من طريق يحيى بن أبي كَثِيرٍ
“امام عسقلانی فتح الباری میں بیان کرتے ہیں کہ امام بیہقی نے انبیاء کرام علیہم السلام کے اپنی قبروں میں زندہ ھونے کے بارے میں (صحیح أحاديث پر مشتمل ایک خوبصورت کتاب لکھی
جس میں انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث بھی وارد کی ھے کہ انبیاء کرام عليهم السلام اپنی قبور میں حیات ظاہری کی
طرح ھی زندہ ھوتے ہیں اور نماز بھی ادا کرتے ہیں یہ حدیث انہوں نے یحیی بن ابی کثیر کے طریق سے روایت کی ہے اور وہ صحیح حدیث کے راویوں میں سے ہیں۔
اُنہوں نے مستلم بن سعید سے روایت کی اور امام احمد بن حنبل نے بھی انہیں ثقہ قراردیاہے۔ امام
ابن حبان نے یہ حدیث حجاج اسود سے روایت کی ھے اور وہ ابن ابی زیاد البصری ہیں اور انہیں بھی امام احمد بن حنبل نے ثقہ قرار دیا ہے۔
امام بیہقی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔“ .6 . أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب الصلاة، باب كيف فرضت الصلاة في الإسرائ ، 1 / 136، الرقم :
342
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے
الله
ہیں کہ حضورنبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: شب معراج الله تعالیٰ نے میری اُمت امت پر پچاس نمازیں فرض کیں تو میں ان (نمازوں) کے ساتھ واپس آیا یہاں تک کہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس
گزرا تو انہوں نے سوال کیا:
سے
الله تعالیٰ نے آپ کی اُمت کے لئے آپ پر کیا فرض کیا ھے؟ میں نے کہا : اللہ تعالیٰ نے پچاس نمازیں فرض کی ہیں۔ انہوں نے کہا : اپنے ربّ کی طرف
واپس جایئے۔۔۔
کیوں کہ آپکی اُمت اسکی طاقت نہیں رکھتی انہوں نے مجھے واپس لوٹا دیا میری درخواست
پر اللہ تعالیٰ نے ان کا ایک حصہ کم کر دیا۔
میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف واپس
گیا اور کہا کہ اللہ پاک نے ایک حصہ کم کر دیا ھےانہوں نے کہا اپنے ربّ کی طرف (پھر) جایئے کیوں کہ آپ کی اُمت میں ان کی ادائیگی کی طاقت بھی نہیں ھے۔ پس میں واپس گیا تو اللہ پاک نے ان کا ایک حصہ اور کم کر دیا میں ان کی طرف آیا تو انہوں نے پھر کہا: اپنے ربّ کی طرف جایئے کیونکہ آپ کی امت میں ان کی ادائیگی
کی طاقت بھی نہیں ہے۔ میں واپس لوٹا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا :یہ ہیں تو پانچ نمازیں) مگر ثواب کے اعتبارسے)پچاس کے برابر ہیں۔ میرے ہاں احکامات تبدیل نہیں
ھوتے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انہوں نے کہا : اپنے ربّ کی طرف جایئے
اور مزید کمی کے لئے درخواست کیجئے میں
کہا:
نے
مجھے اب اپنے ربّ سے حیا آتی ھے پھر جبرائیل علیہ السلام) مجھے لے کر چلے یہاں تک کہ سدرة المنتہی پر پہنچے جسے مختلف رنگوں نے ڈھانپ رکھا تھا۔۔۔
نہیں معلوم کہ وہ کیا ہیں؟ پھر مجھے جنت میں داخل کیا گیا جس میں موتیوں کے ھار ہیں اور اس کی مٹی مشک کی مانند خوشبودار ھے۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ .7 : أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب الأنبيائ، باب قول الله تعالى واذكر في الكتاب مريم، 3 / 1269، الرقم : 3254 ، ومسلم في الصحيح كتاب الإيمان، باب الإسراء برسول الله الا الله إلى
السماوات، 1 / 154، الرقم : 168
وس
حضرت ابوهریره رضی الله عنہ سے روایت ہے
کہ حضور نبئ کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: شب معراج
ملاقات
میری حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ھوئی۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے حضرت
موسیٰ علیہ السلام کا وصف یوں بیان فرمایا: وہ دبلے پتلے، دراز قد، گھنگریالے بالوں والے ایسے آدمی ہیں جیسے قبیلہ شنوءہ کے لوگ آپ صلى الله عليه وسلم نے
سے
فرمایا : میری حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی ملاقات ھوئی پھر حضور نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے اُن کا حلیہ بیان فرمایا کہ۔۔۔۔۔ یہ درمیانہ قد،سرخ رنگ والے (اور ایسے تر و تازہ ہیں گویا ابھی حمام سے نہاکر) نکلے ہیں اور میں حضرت ابراھیم علیہ السلام سے بھی ملا اور میں أنكى ساری اولادمیں سب سے زیادہ اُن سے مشابہ
ھوں۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ :8 حضرت ابوهريره رضى الله عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ا ل و ل صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : حضرت عيسى بن مریم علیہ السلام عادل حاکم اور منصف امام کے
طور پر ضرور اتریں گے.
وہ فوری طور پر حج یا عمرہ یا دونوں کی نیت سے چل پڑیں گے اور میری قبر پر ضرور آئیں گے، مجھے
سلام کریں گے اور میں انہیں ضرور جواب دوں گا۔ حضرت ابوهریره رضی اللہ عنہ نے راوی سے)
فرمايا : اے میرے بھتیجے! اگر آپ کو ان کی زیارت کی
سعادت حاصل هوتو ان سے عرض کرنا کہ ابوهریرہ نے آپ کی خدمت میں سلام عرض کیا
ھے۔
اس حدیث کو امام حاکم، ابن عساکر اور متقی ہندی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا : اس
حدیث کی سند صحیح ہے۔ .9: أخرجه مسلم في الصحيح، كتاب الإيمان، باب ذكر المسيح ابن مريم والمسيح الدجال، 1 / 156، الرقم : 178 ، والنسائي في السنن الكبرى
6 / 455، الرقم : 11480
”
له
حضرت ابوهریره رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : شب معراج نے خود کو حطیم کعبہ میں پایا اور قریش
مجھ سے سفرِ معراج کے بارے میں سوالات کر رہے تھے اُنہوں نے مجھ سے بیت المقدس کی
میں
کچھ چیزیں پوچھیں جنہیں میں نے (یادداشت میں محفوظ نہیں رکھا تھا جس کی وجہ سے اتنا پریشان ہوا کہ اس سے پہلے کبھی اتنا
میں
پریشان نہیں ہوا تھا۔۔۔۔
تب اللہ پاک نے بیت المقدس کو اُٹھا کر میرے
سامنے رکھ دیا وہ مجھ سے بیت المقدس کے متعلق جو بھی چیز پوچھتے میں دیکھ دیکھ کر انہیں بتاتا چلا گیا اور میں نے خود کو انبیاء کرام کی ایک جماعت میں پایا میں نے دیکھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کھڑے مصروف نماز
تھے۔۔۔۔
اور وہ قبیلہ شنوءہ کے لوگوں کی طرح گھنگریالے بالوں والے تھے اور پھر حضرت عيسى بن مريم عليهما السلام کھڑے مصروف نماز تھے اور عروہ بن مسعود ثقفی اُن سے بہت مشابہ ہیں اور پھر حضرت ابراھیم علیہ السلام کھڑے مصروف نماز
تھے
اور تمہارے آقا (یعنی خود حضور نبی اکرم صلى الله عليه وسلم ان کے ساتھ سب سے زیادہ مشابہ ہیں پھر نماز
کا وقت آیا، اور میں نے ان سب انبیاء علیہم السلام کی امامت کرائی۔ جب میں نماز سے فارغ
هوا تو مجھے ایک کہنے والے نے کہا :
یہ حضرت مالک علیه السلام ہیں جو جہنم کے داروغہ ہیں، انہیں سلام کیجئے ۔ پس میں ان کی طرف متوجہ ہوا تو انہوں نے مجھ سے پہلے
مجھے سلام کیا۔”
اسے امام مسلم اور نسائی نے روایت کیا ہے۔ 10. خرجه الحاكم في المستدرک، 2/623 ، الرقم : 4087، وابن قتيبة في تأويل مختلف الحديث،
.321/1
:
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے
کہ میں نے حضورنبی پاک صلى الله عليه وسلم کو فرماتے ھوئے
ہیں سنا اس وقت آ ا م ا ل و ل صلى الله عليه وسلم حضرت یوسف علیہ السلام
کے اوصاف بیان فرما رھے تھے جب آپ صلى الله عليه وسلم نے
وس
انہیں معراج کی رات تیسرے آسمان پر دیکھا۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا میں نے ایک ایسے شخص کو دیکھاجس کی صورت چودھویں رات کے چاند
کی طرح تھی پس میں نے پوچھا:
اے جبریل علیہ السلام یہ کون ہیں؟ انہوں نے عرض کیا یہ آپکے بھائی حضرت یوسف علیہ السلام ہیں ابن اسحاق کہتے ہیں اللہ پاک نے حضرت یوسف علیہ السلام کو وہ حسن و رعب عطا کر رکھا تھا جو عالمین میں سے آپ سے پہلے
اور نہ آپ کے بعد کسی کو عطا کیا گیا۔
یہاں تک کہ کہا جاتا تھا کہ اللہ کی قسم! میں یہ جانتا ھوں کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو پورے حسن کا آدھا حصہ اور دوسرا آدھا حصہ
تمام دنیا کے لوگوں کو عطا ھوا۔”
اس حدیث کو امام حاکم اور ابن قتیبہ نے روایت کیا ھے۔۔ ،12، والهيثمي في مجمع الزوائد، 3 / 221،
،وأيضًا، 8 / 204. “حضرت عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان
صلى الـ کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: گویا
اس وقت بھی حضرت موسیٰ بن عمران
علیہ السلام کو اس وادی میں دو قطوانی چادروں میں حالتِ احرام میں دیکھ رھا ھوں
میں
اس حدیث کو امام طبرانی، ابویعلی اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔ امام منذری اور ہیثمی نے فرمایا: اس کی اسناد حسن ھے۔
13 :هُذَا حَدِيث صَحِيحٌ عَلَى شَرطِ مُسلِمٍ.. حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنهما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی پاک صلى الله عليه وسلموادی آزرق کی
طرف تشریف لائے اور دریافت فرمایا : یہ کیا ھے ؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یارسول الله صلى الله عليه وسلم یہ وادی ازرق ھے تو آپ صلى الله عليه وسلم نے
فرمایا گویا کہ میں موسیٰ بن عمران علیہ
وس
السلام کی طرف دیکھ رھا ھوں کہ وہ اس وادی میں اللہ پاک کی کبریائی بیان کرتے ھوئے اتر رھے ” حضرت عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما سے
صلى مروی ہے کہ حضور نبی پاک ا ل و ل صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : مسجد خیف میں ستر انبیاء كرام عليهم السلام نے نماز ادا کی جن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی شامل تھے، گویا میں اس وقت
بھی ان کی طرف دیکھ رھا ھوں۔۔۔
ایک
اور ان پر دو قطوانی چادریں تھیں اور وہ حالتِ احرام میں قبیلہ شنوہ کے اُونٹوں میں سے اونٹ پر سوار تھے جس کی نکیل کھجور کی
چھال کی تھی جس کی دو رسیاں تھیں۔ اس حدیث کو امام طبرانی ابو نعیم اور فاکہی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا : اس کے
رجال ثقات ہیں۔ ہیں۔
پھر آپ صلى الله عليه وسلم ایک پہاڑی راستے کی طرف تشریف
لائے تو آپ م م ا ل و ل صلى الله عليه وسلم نے دریافت فرمایا : یہ کون سا پہاڑی راستہ ھے ؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یہ فلاں فلاں پہاڑی راستہ ھے۔ تو
آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا :
گویا میں حضرت یونس بن متی علیہ السلام کو سرخ گنگریالے بالوں والی اونٹنی پر بیٹھا ھوا دیکھ رھا ھوں اُس اونٹنی کی لگام کھجور کی چھال کی ہے اور آپ تلبیہ کہہ رہے ہیں اور آپ نے اون کا جبہ زیب تن کیا ھوا ھے۔ “اس حدیث کو
امام حاکم ابن حبان ابو نعیم ابو عوانہ اور
طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا : یہ حدیث امام مسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔ .14 . أخرجه الحاكم في المستدرك ، 2/653، الرقم : 4169، والطبراني في المعجم الكبير، 12/474، الرقم : 13525، والبيهقي في السنن الكبرى، 5 / 177، الرقم : 297
“حضرت عبدالله بن عباس رضى الله عنهما بيان کرتے ہیں کہ روحاء کے راستے پر ستر انبیاء کرام عليهم السلام حج کی غرض سے گزرے ہیں جو اون کے کپڑے زیب تن کئے ھوئے تھے اور مسجد خیف میں ستر 70 انبیاء علیہم السلام نے نماز ادا کی اس حدیث کو امام حاکم، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا : اس کے
رجال ثقہ ہیں۔۔۔ البخاري في التاريخ الكبير ، 6/416 ، الرقم : 2831 وابن حيان في العظمة ، 2/762 ، الرقم : 1 ، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 162
”
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما سے روایت ھے کہ حضور نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : بیشک الله
پاک نے میری قبر پر ایک فرشتہ مقرر کیا ھوا ھے اللہ پاک نے تمام مخلوقات کی آوازیں سننے
جسے
اور سمجھنے کی قوت عطاء فرمائی ہے۔۔۔ پس روزِ قیامت تک جو بھی مجھ پر درود پڑھے گا، وہ فرشتہ اس درود پڑھنے والے کا نام اور اس کے والد کا نام مجھے پہنچائے گا، اور عرض کرے گا :یارسول الله صلى الله عليه وسلم ! فلاں بن فلاں نے آپ پر درود
بھیجا ھے۔”
اس حدیث کو امام بزار اور بخاری نے التاريخ الکبیر میں اور منذری نے بھی روایت کیا ہے۔ امام
ہیثمی نے فرمایا : اس کی سند میں ابن حمیری راوی کو میں نہیں جانتا، اس کے علاوہ تمام رجال صحيح حدیث کے رجال ہیں۔ ابو شيخ ابن حیان کی روایت کے الفاظ یوں ہیں
کہ حضور نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : بیشک الله تبارک و تعالیٰ کا ایک فرشتہ ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کی آواز سننے اور سمجھنے) کی قوت عطا فرمائی ھے پس وہ فرشتہ میرے وصال کے بعد میری قبر پر قیامت تک کھڑا رھے
گا۔۔
—-15
پس میری امت میں سے جو شخص بھی مجھ پر درود بھیجے گا، وہ فرشتہ اس کا نام اور اس کے
دالله
باپ کا نام لے گا اور کہے گا : یا محمد صلى الله عليه وسلم! (میرے (آقا) فلاں شخص نے آپ کی خدمت میں درود
بھیجا ہے۔ پس اللہ پاک اس شخص پر ہر ایک درود کے بدلے میں دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔ 16 : هَذَا حَدِيثُ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ مُسْلِمِ. رَوَاهُ الدّارَ قُطْنِي وَمَالِك. وَقَالَ الدَّارَ قُطْنِي : هَذَا إِسْنَادُ
صَحِيحٌ.
“حضرت عبد الرحمن بن عبدالقاری سے روایت کہ اُنہوں نے حضرت عمر بن خطاب رضى الله
ھے
عنہ کو منبر پر لوگوں کو تشہد سکھاتے ھوئے سنا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : یوں کہو :
تمام قولی اور فعلی عبادتیں ، اور تمام پاکیزہ چیزیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں، اور سلامتی ہو آپ پر، اے نبی مکرم ! اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی برکات کا) نزول (هو) اور سلامتی هو هم
پر اور اللہ تعالیٰ کے تمام نیک بندوں پر میں
گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلى الله عليه وسلم اللہ تعالیٰ کے (پیارے) بندے اور اُس کے رسول ل ل ل ا ل و ل صلى الله عليه وسلم ہیں ۔
سلام
اس حدیث کو امام مالک شافعی، عبد الرزاق اور طحاوی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا : یہ حدیث امام مسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔ اورایک روایت میں حضرت عبدالله بن عمر رضی عمررضی الله عنهما، حضور نبی اکرم و ل صلى الله عليه وسلم سے روایت کرتے ہیں
حضورنبی کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : تشہد میں یہ پڑھو تمام قولی اور فعلى عبادتیں اور تمام پاکیزه کلمات الله تعالى کے لئے خاص ہیں اے نبی مکرم صلى الله عليه وسلم ! آپ پر سلامتی اور اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو۔۔۔”
اس حدیث کو امام دارقطنی اور مالک نے روایت
کیا ھے۔ ایک روایت میں حضرت عبدالله بن عمر رضی صلى الـ
الله عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ھے ھمیں یوں تشہد سکھایا کرتے تھے تمام قولی فعلی عبادات اورتمام عمده كلمات اللہ کیلئے خاص ہیں اے نبی محتشم صلى الله عليه وسلم آپ پر سلامتی اور الله تعالیٰ
کی رحمت اور برکات ھوں۔۔۔ الحدیث”
اس حديث کوامام دارقطنی اور حاکم نے حضرت جابر بن عبد الله رضی اللہ عنہماسے روایت کیا ہے
عبدالله
امام دار قطنی نے فرمایا
یہ سند متصل حسن ھے امام حاکم نے بھی فرمایا
یہ حدیث امام مسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔ 16. حضرت عبیدالله بن بریدہ اپنے والد حضرت بریده رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : اے بریده جب تم اپنی نماز پڑھنے بیٹھوتو تشہد اور مجھ پر درود بھیجنا کبھی ترک نہ کرنا ۔
وہ نماز کی زکوة ہے اور اللہ پاک کے تمام انبیاء اور رسولوں پر اور اُسکے نیک بندوں پر بھی سلام بھیجا کرو اس حديث كوامام دارقطنی اوردیلمی
نے روایت کیا ہے۔
17 أخرجه أبو داود في السنن، كتاب الصلاة، باب فيما يقوله الرجل عند دخوله المسجد، 1 / 126،
الرقم : 465 ، وابن ماجه في السنن، كتاب
المساجد والجماعات باب الدعاء عند دخول
المسجد، 1 / 254،
حضرت ابوحميد الساعدى يا ابواسید الانصاری رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی پاک صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : جب تم میں سےکوئی مسجد میں
صلى الله داخل ھو تو اُسے چاہئے کہ حضور سید عالم ا ل و ل صلى الله عليه وسلم
پر سلام بھیجے پھر کہے:
اے اللہ ! میرے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے اور جب مسجد سے باہر نکلے تو کہے اے الله!
میں
تجھ سے تیرا فضل مانگتا ھوں۔ اس حديث کو ابوداود، ابن ماجہ اور دارمی نے روايت كيا ہے۔ امام ابوحاتم رازی نے بیان کیا کہ امام ابوزرعہ نے فرمایا :
حضرت ابو حمید اور ابو اسید رضی الله عنهما دونوں سے مروی روایات صحیح تر ہوتی ہیں اور امام مناوی نے فرمایا:
جب تم میں سے کوئی مسجدمیں داخل ھوتواسے حضور نبی پاک ا ل و ل صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں سلام کو محبوب ضروری اور لازم سمجھتے ھوئے عرض کرنا چاھئے کیوں کہ مساجد ذکر کرنے کی جگہ ہیں
اور حضور پاک صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں سلام عرض کرنا بھی ذکر الہی ھی ھے۔
18 أبو يعلى في المسند، 12 / 121، 199، الرقم : 6754 ،6822، وأيضًا في المعجم، 1 / 54، الرقم : 24 ، والطبراني في المعجم الكبير 22 / 424، الرقم : 1044، وأيضًا في الدعائ،
1 / 150، الرقم : 423.426.
Loic
“حضرت فاطمہ بنت حسین رضی اللہ عنہما اپنی دادی جان سیدہ کائنات فاطمہ الکبری رضی الله
سے روایت کرتی ہیں، انہوں نے فرمایا :
صلى الله حضور نبی اکرم صلى الله عليه وسلم مسجد میں داخل ھوتے وقت
صلى الله محمد مصطفی صلى الله عليه وسلم پر صلوۃ و سلام پڑھتے اور اُس کے بعد یہ دعا مانگتے اے ربّ! میری امت کے
گناہ بخش دے اور میرے لئے اپنی رحمت کے
دروازے کھول دے۔۔۔
اور باہر تشریف لاتے وقت بھی مُحَمّدِ مُصطَفى و ل و ل صلى الله عليه وسلم
پر صلوۃ وسلام پڑھتے اور پھر یوں دعا مانگتے : اے میرے ربّ! میری امت کے گناہ بخش دے اور
میرے لئے اپنے فضل کے دروازے کھول دے۔“
اس حدیث کو امام ترمذی، احمد اور عبدالرزاق نے روایت کیا امام ترمذی نے فرمایا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن ہے۔
صلى اور ایک روایت میں ھے کہ آپ صلى الله عليه وسلم فرماتے : الله
کے نام سے شروع اور اللہ پاک کے رسول ل ل و ل صلى الله عليه وسلم پر را بھی سلام هو اس کے بعد اسی طرح حدیث بیان
کی.” اسے امام ابن ماجہ اور ابن ابی شیبہ نے
روایت کیا ہے۔ ایک اور روایت میں سیدہ فاطمہ رضی الله عنها
بیان فرماتی ہیں کہ حضور نبی کریم صلى الله عليه وسلم جب مسجد میں داخل ھوتے تو محمد مصطفی پاری
ل صلى الله عليه وسلم
سلام بھیجتے
اور اسی طرح مسجد سے نکلتے وقت بھی محمد
صلى الله مصطفی و ل ل و ل صلى الله عليه وسلم پر سلام بھیجتے اس کے بعد سابقہ
حدیث کی دعا بیان کی
اسے امام احمد ابو یعلی اور طبرانی نے روایت
کیا ھے۔
اور ایک روایت میں ھے کہ سیدہ کائنات رضی
الله عنہا نے بیان فرمایا کہ آپ صلى الله عليه وسلم یوں فرماتے
اے اللہ کے نبی!
آپ پر سلامتی .هو اور الله پاک کی رحمتیں اور
برکتیں ھوں۔
اس حدیث کو امام ابویعلی نے المعجم
روایت کیا ہے۔
میں
.19. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالنِّسَاعِي وَالْبُخَارِي فِي الْكَبِيرِ. وَقَالَ الْحَاكِمُ : هَذَا حَدِيث صَحِيحٌ عَلَى شَرطِ
الشيخين..
حضرت ابوهریره رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
کہ حضور نبی پاک صلى الله عليه وسلم صلى الله عليه وسلم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: جب تم میں کوئی مسجد میں داخل ھو تو اسے چاہئے کہ
وہ حضور نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں سلام
سے
عرض کرے اور اس کے بعد یہ کہے۔ اے اللہ! میرے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول
دے اور جب مسجد سے باہر نکلے تو تب بھی حضور نبی پاک صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں سلام عرض
کرے اور اس کے بعد کہے : اے میرے اللہ ! مجھے شیطان مردود سے بچا۔“ اور ایک روایت کے مطابق فرمایا : اُسے چاہئے
کہ وہ سلام عرض کرنے کے بعد کہے :اے الله! مجھے شیطان مردود سے دور رکھ۔”
یہ حدیث امام بخاری اور مسلم کی شرائط پر صحیح ھے امام کنانی نے فرمایا : اس حدیث کی
سند صحیح اور اس کے رجال ثقہ ہیں۔۔۔۔
صلى الله اے ایمان والو نبی پاک ا ل و ل صلى الله عليه وسلم سے محبت کرنا ھر ایک مسلمان پر فرض و واجب بلکہ ایمان اس محبت
کے بغیر ممکن ہی نہیں
یاد رھے کہ سلام کیا ھی زندہ کو جاتا ھے کیونکہ کوئی ایک بنده سويا هوا هو هر ذی شعور انسان یہ بات جانتا ھے کہ یہ بندہ سویا ھوا ھے اس کو
کوئی بھی سلام نہیں کرتا
اور یہ حال عام مسلمان بندے کا ھے اور جو خواص ہیں ان کی بات ھی کوئی نہیں اور جو اخوص الخواص ھوں نفوسِ قدسیہ اللہ پاک کے نیک بندے جن کو اولیاء اللہ کہا جاتا ہے ان کی
تو شان هی هی ارفع و اعلیٰ اور ان میں جو
مے انبیائے کرام علیہم السلام ھیں ان کی شان تو هم كيا بيان کریں جن کو اللہ ربّ العالمین عزوجل نے
بنایاهی خاص الخاص هي جوهیں هی معصومین عليهم الصلوۃ والتسلیم ان کے بارے میں کوئی ھلکی سی بھی بات نہیں کر سکتے وگرنہ ایمان تو تو گیا ھاتھ سے لہذا انبیاء کرام علیہم السلام زندہ ھیں یہی تمام امّتِ مسلمہ کا عقیدہ اور ایمان ھے۔ حضرت امام جلال الدین سیوطی شافعی رحمۃ الله علیہ حضرت ابو منصور عبد القاہر بغدادی علیہ
الرحمہ کا قول نقل فرماتے ہیں:
قَالَ الْمُتَكَلِّمُونَ الْمُحَقِّقُونَ مِن أصْحَابنا أن نبينا أَنْ نَبِيْنَا حَيْ بَعْدَ وَفَاتِهِ، وَأَنَّهُ يَسَرُ بِطَاعَاتِ أُمِّتِهِ وَيَحْزَنُ
بِمَعَاصِي الْعُصَاةِ مِنْهُمْ۔۔
یعنی ہمارے اصحاب میں سے محقق متکلمین فرماتے ہیں: بیشک ہمارے نبی صلى الله عليه وسلم اپنی وفات کے بعد بھی زندہ ہیں اور اپنی اُمّت کی نیکیاں دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور انکی نافرمانیاں دیکھ کر غمزدہ ہوتےہیں۔(الحاوی للفتاوى، ج 2، ص 180) شارح بخاری حضرت امام احمد بن محمد قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
لَافَرقَ بَينَ مَوتِهِ وَحَيَاتِهِ فِي مُشاهَدَتِهِ لِأُمِّتِه، و
مَعرِفَتِهِ بِأَحْوَالِهِم وَنِيَّاتِهِم وَعَزَائِمِهِم وَخَوَاطِرِهِم،
وَذُلِكَ عِندَةً جَليَ لَا خَفاءَ بِهِ…
میں
یعنی اپنی اُمّت کا مشاہدہ فرمانے، ان کے حالات، دِل کے ارادوں، نیتوں اور ان کے راز جانئے رسول کریم صلى الله عليه وسلم کی وفات اور حیات میں فرق نہیں۔ یہ تمام چیزیں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے ہاں
ظاہر ہیں ان میں سے کچھ پوشیدہ نہیں۔
مواهب لدنیہ، ج 3، ص410
کوئی
دیکھیں قرآن پاک اس بات پر شاہد ہے کہ اللہ پاک کے نبی حضرت سیدنا سليمان عليه الصلوة والسلام ایک سال تک آپ نماز کینحالت میں رھے جب کہ آپ پر ظاہری موت کا وعدہ آچکا تھا اور اس واقعے کو قرآن پاک کچھ یوں بیان فرما رھا
ھے۔۔۔
بسم
الله الرحمن الرحيم .. فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ
مَا دَلْهُمْ عَلَى مَوْتِةٍ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ تَأكُلُ مِنسَاتَةً فَلَمَّا خَرٌ تَبَيَّنَتِ الجِن اَن لَّوْ كَانُوا يَعْلَمُوْنَ الْغَيْبَ مَا لَبِتُوا فِى الْعَذَابِ الْمُهِينِ (14) ترجمہ کنز العرفان
پھر جب ہم نے سلیمان پر موت کا حکم بھیجا توجنوں کو اس کی موت زمین کی دیمک نے ہی
بتائی جو اس کا عصا کھارہی تھی پھر جب سلیمان زمین پر آرہا تو جنوں پر یہ حقیقت کھل گئی کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو اس ذلت و
خواری کے عذاب میں نہ رہتے۔ اب اس کی تفسیر صراط الجنان میں کچھ یوں
فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ: پھر جب ہم نے سلیمان پر
موت کا حکم بھیجا۔ حضرت سلیمان علیہ السّلام نے بارگاہِ الہی میں دعا کی تھی کہ ان کی وفات کا حال جنّات پر ظاہرنہ ہوتاکہ انسانوں کو معلوم
ہوجائے کہ جن غیب نہیں جانتے ، پھر آپ علیہ السَّلَام محراب میں داخل ہوئے اور حسبِ عادت نماز کے لئے اپنے عصا کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑے ہو گئے جنات دستور کے اپنی خدمتوں میں مشغول رہے اور یہ سمجھتے رہے کہ حضرت سلیمان عَلَيْهِ الصلوة والسلام زندہ ہیں اور حضرت سلیمان علیہ الصلوةُ وَالسَّلَام کاعرصۂ دراز تک اسی حال پر رہنا
اُن کے لئے کچھ حیرت کا باعث نہیں ہوا، کیونکہ وہ بارہا دیکھتے تھے کہ آپ عَلَيْهِ الصَّلُوةُ وَالسَّلَام ایک ،ماه دوماہ اور اس سے بھی زیادہ عرصہ تک
عبادت میں مشغول رہتے ہیں اور آپ عَلَيْهِ السَّلَام کی نماز بہت لمبی ہوتی ہے حتٰی کہ آپ عَلَيْهِ السَّلَام کی وفات کے پورے ایک سال بعد تک جنات آپ عَلَيْهِ الصَّلٰوةُ وَالسَّلَام کی وفات پر مطلع نہ ہوئے اوراپنی خدمتوں میں مشغول رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے دیمک نے آپ عَلَيْهِ الصَّلٰوةُ وَالسَّلَام کا عصا کھالیا اورآپ عَلَيْہ السَّلَام کاجسم مبارک جو لاٹھی کے سہارے سے قائم تھا زمین پر تشریف لے آیا۔ اس وقت جنات کو آپ عَلَيْہ السَّلَام کی وفات کا علم ہوا۔ ) خازن ، سبأ، تحت الآیۃ: ۱۴، ۳ /
(۵۱۹
اس آیت سے معلوم ہوا کہ انبیاء کرام عَلَيْهِمُ الصَّلٰوةُ وَالسَّلَام کے مقدّس اجسام وفات کے بعد
گلنے اور مٹنے سے محفوظ رھتے ہیں تو زندہ ہے والله هے زندہ ہے والله میرے چشمِ عالم سے چھپ جانے والے
حضورنبی کریم رؤف و رحیم صلى الله عليه وسلم کے روضہ اقدس على صاحبها الصلوة والسلام کی بارگاہ میں ھونا اور اپنے گناہوں کی معافی چاہتا یہ کوئی
حاضر
الله
معمولی بات نہیں بلکہ یہ تو قرآن پاک میں پاک ارشاد فرما رھا ھے بلکہ حکم فرمارہا ہے۔۔ پاره 5 والمحصلت سوره نساء آیت نمبر 63کا جز
اس میں تمهارا رب فرما رها ھے۔۔۔
ولوا انهم انظلموا انفسهم جاوك فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّابًا رَّحِيْمًا
(64)
اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کربیٹھے
تھے تو اے حبیب! تمہاری بارگاہ میں حاضر ہوجاتے پھر اللہ سے معافی مانگتے اور رسول (بھی) ان کی مغفرت کی دعا فرماتے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا، مہربان پاتے۔ اس ضمن میں تفاسیر میں یہ واقعہ بھی درج ھوتا ھے جو ھم سمجھتے ہیں کہ وہ واقعہ ھم بھی اپنی کتاب کی زینت بنائیں۔۔۔ حضور سید المرسلین صلى الله عليه وسلم کی ظاہری وفات شریفہ
هم
کے بعد ایک اعرابی روضۂ اقدس پر حاضر ہوا اور روضۂ انور کی خاک پاک اپنے سر پر ڈالی اور عرض کرنے لگا: یارسول اللہ علیہ السلام جو آپ نے فرمایا، ہم نے سنا اور جو آپ صلى الله عليه وسلم پر نازل
ہوا ،اس میں یہ آیت بھی ہے۔۔۔ “وَ لَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا” میں نے بے شک اپنی جان پر
الله پاک
ظلم کیا اورمیں آپ صلى الله عليه وسلم کی بارگاہ میں سے اپنے گناہ کی بخشش چاہنے حاضر ہوا ہوں تو میرے رب عَزَّوَجَلَّ سے میرے گناہ کی بخشش کرائیے ۔ اس پر قبر مبارکه سے ندا آئی
قَد غُفِرَ لَک تحقیق تجھے بخش دیا گیا۔
مدارک النساء، تحت الآیۃ: ۶۴، ص۲۳۶
وق
الغرض یہ آیت مبارکہ سرور کائنات صلى الله عليه وسلم کی عظيم مدح و ثنا اور زندہ ھونے کی دلیل پر ہے.
اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت رَحْمَةُ اللهِ تَعَالَى عَلَيْهِ نے بہت سے اشعار فرمائے ہیں۔ چنانچہ “حدائق “بخشش” میں فرماتے ہیں :
مجرم بلائے آئے ہیں جَاءُوكَ ہے گواہ پھر رد ہو کب یہ شان کریموں کے در کی ہے
اور فرمایا:
بخدا خدا کا یہی ہے در نہیں اور کوئی مَفَر مَقَر جو وہاں سے ہو یہیں آ کے ہو جو یہاں نہیں تو
وہاں نہیں
اور فرمایا:
وہی رب ہے جس نے تجھ کو ہمہ تن کرم بنایا ہمیں بھیک مانگنے کو تیرا آستاں بتایا
آيت”وَ لَوْأَنَّهُمْ إِذْظْلَمُوْا” سے معلوم ہونےوالے :احکام اوراس آیت سے 4 باتیں معلوم ہوئیں۔ (1) اللہ پاک کی بارگاہ میں حاجت پیش کرنے کے لئے اُسکے مقبولوں کووسیلہ بناناکامیابی کاذریعہ ہے۔
(2) … قبرِ انور پر حاجت کے لئے حاضر ہونا بھی “جَاءُوكَ” میں داخل اور خَیرُ القُرون کا معمول ہے۔
(3)…. بعد وفات مقبولان حق کو “یا” کے ساتھ نِدا
کرنا جائز ہے
(4)… مقبولانِ بارگاه الهی دنیا سے چلے جانے کے بعد فوت هو جانے کے بعد اپنی قبر میں جانے کے بعد بھی مدد فرماتے ہیں اور انکی دعا سے حاجت
روائی ہوتی ہے۔
Point to be noted
جب قرآن پاک میں اللہ پاک اپنے محبوب نبی ل و ل صلى الله عليه وسلم کی بارگاہ میں بھیج رھا ھے کہ جاؤ۔۔۔ ولوا انهم انظلموا انفسهم جاوک فرمارماهیاب منع کرنے والے کو مانیں یا پیدا کرنے والے کی بات کو مانا جائے؟ ظاھر ھے ھم نے الله پاک کی هى ماننی ھے کیونکہ ہم بندے ھیں اور بندے کا کام هوتا هی اپنی خالق و مالک کی بات کو
مانا جائے تو لہذا فتنہ ڈالنے والوں نے فتنہ ڈالنا هی هے مگر اس کی طرف توجہ نہ دیں اور لگے رھیں اپنے خالق و مالک عزوجل کی طرف۔۔۔ سیدی اعلیحضرت مجدد اعظم ھند کے حسّان الشاه امام احمد رضا خان قادری علیه الرحمه اپنے نعتیہ دیوان بنام حدائق بخشش شریف میں
لکھتے ہیں. الله کی سرتا بقدم شان ہیں یہ
ان سا نہیں انسان وہ انسان ہیں یہ قرآن تو ایمان بتاتا ہے انھعن ھاور ایمان یہ کہتا ھے میری جان
سید اعليحضرت علیہ الرحمہ نے ھمیں محبوب خدا و و ل صلى الله عليه وسلم کی شان و عظمت کو بتایا کہ کس شان
کے مالک ہیں كائنات میں ان جیسا ھـ ان جیسا ھے ھی نہیں
قرآن پڑھو قرآن انہیں ایمان بتاتا ھے اور ایمان کہتا ھے کہ یہ میری جان ہیں ان کے بغیر ایمان بھی کسی کام کا نہیں
زندگیاں ختم ھوئیں اور قلم ٹوٹ گئے
پر تیرے اوصاف کا اک باب بھی پورا نہ ہوا۔۔۔۔
یہ رسول مقبول بی بی آمنہ کے پھو ل صلى الله عليه وسلم اللہ پاک کے تو ھیں ھی محبوب مگر یہ ھم ایمان والوں کی جانوں سے بھی زیادہ عزیز تر ہیں الله پاک
الله ھمیں حضورِ اقدس صلى الله عليه وسلم کی سچی سچی محبت عطا فرمائے اور حضورپاک صلى الله عليه وسلم کی شان کو بیان کرتے ھیں رھنے کی توفیق رفیق مرحمت
فرمائے۔۔۔۔ آمين يارب العالمين بجاه النبى طه و يـاسـيـن عليه الصلوة والتسليم…..
ابوامين سيد محمد مبین رضا عطاری عفی عنہ امام و خطیب جامع مسجد فیضان مشتاق
شاہ عالم مارکیٹ لاهور 19 ربيع الآخر ماهِ فاخر ماهِ عبد القادر 1443 اے مبین پڑھ لے درود ان پر اور ان کی آل پر ھے فرشتوں کا وظیفہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الصلوة والسلام
Title: The Life of the Prophet (pbuh): Syed Abu Ameen Attari
May
Allah grant us the opportunity to follow the footsteps of the Prophet (pbuh) in Islam. Ameen, O Lord of the Worlds, for the sake of the Prophet Taha and Yasin, may peace and blessings be upon him. Ameen, O Lord of the Worlds, for the sake of the Prophet, peace and blessings be upon him. Abu Ameen Syed Muhammad Mobeen Raza Attari, the imam and preacher of Jamia Masjid Faizan Mustaq Abu Ameen Syed Muhammad Mobeen Raza Attari, the imam and preacher of Jamia Masjid Faizan Mustaq in Shah Alam Market, Lahore. 19 Rabi-ul-Aakhir 1443 AH. O Prophet, recite blessings upon them and their family, as it is the duty of the angels. Peace and blessings be upon them. 19 Rabi-ul-Aakhir 1443 AH. O Prophet, recite blessings upon them, as it is the duty of the angels. Peace and blessings be upon them.
ماشاءاللہ بہت خوب جناب
اچھا لکھا ھے
درود شریف کی فضیلت
اللہ پاک کے آخری نبی صلى الله عليه وسلم پر درود پاک پڑھنے کے بیشمار فضائل ہیں ان میں سے ایک فرمان مصطفى عليه التحية والثناء جس نے مجھ پر دس مرتبه صبح اور دس مرتبه شام درودپاک پڑھا اسے قیامت کے دن میری شفاعت ملے گی۔۔
مدنی) پنج سوره (ص (263
Allah pak Aapka likny mea barakat dy or aapki tehrir kondawaam bakhshy…