
تذکرہ امیرُالمؤمنین حضرتِ سیدنا امیرِمعاویه رضی اللہ عنہ ۔۔۔۔
ھرصحابئ رسول علیه الصلوۃوالسلام و رضی اللہ عنه جنتی ھےجواب یقیناًقرآن کی رو سےجنّتی ھے تو سیدنا امیرِ معاویه رضی اللہ عنہ صحابی کنفرم صحابی ھیں قطعی جنّتی ھیں۔ سڑنےوالےسڑتےرھیں۔صحابه و اھلِ بیت اطہار رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شان ھی بیان کرنا ایمان کی علامت کہلاتی ھے ۔۔۔۔۔سیدابوامین عطاری چشتی عفی عنه۔حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہما کے درمیان جو اختلاف و نزاع ہوا ۔حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اکابرینِ اُمّت علیہم الرحمہ کی نظر میںاے لوگو اے ایمان والو اے مسلکِ اعلیٰحضرت والوں اور تمام ھی لوگ توجہ سے سُن لو۔۔۔۔ایمان والوں کو یہی آواز آتی ھے سنتے وھی ھیں جو ایمان والے ھوتے ھیں۔۔۔ وہ آواز کیا ھے سنو ذرا توجہ سے ۔۔۔۔حضرت پیر سید محمد مقصود علی شاہ بخاری رحمة الله علیہ متوفٰی ١٩٨٨ء کی سوانح حیات پر مشتمل کتاب ” جمال مقصود ” میں درج ہے کہ : ایک مرتبہ آپ رحمة الله علیہ کی مجلس عالیہ میں جنگ جمل کا تذکرہ ہوا آپ نے فرمایا : کہ میرا گزر اس میدان سے ہوا جہاں یہ جنگ لڑی گئی ۔ دوسرے لوگوں کی طرح میرے دل میں بھی خیال آیا کہ یہ جنگ کیوں اور کیسے لڑی گئی؟ ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک بڑی گرج دار آواز مجھے سنائی دی کہ کوئی کہنے والا کہہ رہا ہے ” خبر دار اس بارے میں دوبارہ نہ سوچنا ورنہ ایمان کی دولت سے محروم ہو جاؤ گے ۔۔۔۔(جمال مقصود ، صاحںزادہ سید محمد عبد الرزاق شاہ بخاری ، باب چھارم ، تحت ” جنگ جمل ، ص 237 ، مطبوعة دار الکتب مقصودیہ غوثیہ ، کوٹ گلہ شریف تلہ گنگ ضلع چکوال ، طبع اول ۱٤٣٧ه/٢٠١٦ء)حضرت امام ابو اسحاق ابراھیم بن علی بن یوسف بن عبد الله فیروز آبادی الشیرازی رحمة الله علیہ متوفٰی٤٧٦ه ایک سوال کا جواب دیتے ہوۓ لکھتے ہیں : ⬇سوال : اگر کہا جائے کہ حضرت علی المرتضی اور حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہما کے درمیان جو اختلاف و نزاع ہوا اس میں حق ان کے ساتھ تھا جو ان دونوں سے تعلق رکھتے تھے ؟جواب : ان کو جواب دیا جائے گا کہ اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے ۔ پس کچھ کہتے ہیں کہ حق حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ کے ساتھ تھا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : علی حق پر ہیں اور حق علی کے ساتھ جہاں پھریں ۔ کچھ علماء فرماتے ہیں : کہ ان دونوں میں سے ہر ایک مجتہد مصیب تھا اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : ہر مجتہد مصیب ہے ۔ حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہما کا اختلاف اصول میں نہ تھا ۔ بلکہ ان کا اختلاف فروع میں تھا ۔جیسے امام شافعی اور امام ابوحنیفہ رحمہما الله کا اختلاف تھا ۔ لوگ اس مسئلہ میں دو قول پر ہیں ۔ کچھ کہتے ہیں کہ حق ایک جہت میں تھا ۔ اور اس جہت میں مخالف مخطئ تھا جس کیلئے ایک اجر تھا مگر اس کی خطا اسے کفرو فسق تک نہ لے جانے والی تھی کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص (کسی مسئلہ میں) اجتہاد کرے اور صحیح فیصلہ تک پہنچ جائے تو اس کیلئے دو اجر ہیں اور جو اجتہاد کرے اور صحیح فیصلے تک نہ پہنچے چوک جائے تو اس کیلئے ایک اجر ہے ان ائمہ میں سے بعض کہتے ہیں کہ دونوں میں سے ہر ایک خیر پر ہونے کے باعث مصیب تھا انہوں نے حضرت علی المرتضی اور حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہما کے معاملہ کو اس پر محمول کیا اس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت عثمان بن عفان رضی الله عنہ خلیفہ تھے اور وہ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے چچا زاد تھے ۔ انہیں ظلم سے قتل کیا گیا ان کے بعد خلافت کی زمام کار حضرت علی کرم الله وجہہ الکریم کے ہاتھ آئی پس حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ ان کے پاس خون عثمان کا مطالبہ لے کر آئے ۔ تو حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ نے پوچھا کس نے عثمان کو قتل کیا ۔ تو پیچھے رہ جانے والے تمام لوگ اٹھ کھڑے ہوئے پس ان کا اجتہاد اس وقت قاتلین کو اس وقت ترک کرنے (یعنی کچھ نہ کہنے) کا ہوا کیونکہ ان سب سے لڑنا ممکن نہ تھا حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ کو خدشہ ہوا کہ خود انہیں نہ قتل کر دیں ۔جیسے انہوں نے عثمان کو قتل کیا ۔ پس جب ان سے تعرض نہ کیا تو حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ اور ان کے ساتھیوں نے گمان کیا کہ حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ اور ان کے ساتھیوں نے امامت کی شرطوں میں سے ایک شرط ترک کی ۔ کیونکہ امامت کی شرط اہل حق کیلے حقوق کا کامل حصول ہے ۔ پھر جب حقوق پورے نہ لئے تو شروط امامت میں سے ایک شرط ترک کر دی اور امامت باطل ہو گئی ۔ جب کہ فی الوقت امام و حاکم کا ہونا ضروری ہے پس اس اجتہاد سے انہوں نے معاویہ کو حاکم بنایا ۔ پس ان میں سے ہر ایک مجتہد اپنے اجتہاد میں مصیب تھا اس کی دلیل یہ ہے کہ ان کے درمیان ایسا معاملہ نہ ہوا جو کفر و فسق پر منتج ہو ۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی الله عنہ جب کافروں سے قتال فرماتے تو خوشی مسرت کا اظہار فرماتے ۔ جب کہ معاویہ کے ساتھ پیکار میں دکھ اورغم کا ظہور ہوا یہاں تک کہ جاں بلب ہو گئے ۔ ابو الحسن علی المرتضی رضی الله عنہ فرماتے ہیں : یہ سب ہمارے درمیان ہوا میں اپنے دکھ اور پریشانی کا شکوہ بارگاہ خداوندی میں کرتا ہوں کاش میں بیس سال پہلے جام موت پی لیتا ۔ آپ اپنے ساتھیوں سے فرماتے : پیٹھ دینے والے کا تعاقب نہ کیا جائے زخمی کو قتل نہ کیا جائے ۔ اگر محاربین سے کوئی بات کفر و فسق تک پہنچانے والی بات پاتے تو اپنے ساتھیوں کو اس کا حکم نہ دیتے ۔ ہمارے اصحاب فرماتے ہیں : حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ مجتہد مصیب تھے ان کیلئے دو اجر ہیں جب کہ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ مجتہد مخطئ تھے ان کیلئے ایک اجر ہے ۔ اس مسئلہ میں واجب یہ ہے کہ ان کے درمیان وقوع پذیر اختلافات میں زبان روکی جائے اور ان کےمحاسن یعنی خوبیوں کا ذکر کیا جائے ۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : عنقریب میرے اصحاب کے درمیان خرابی پیدا ہوگی ۔ جسے الله تعالی ان کی سابقہ نیکیوں کے سبب معاف فرما دے گا ۔ پس تم ان کے اختلافات میں نہ پڑو ۔ بخدا تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا راہ خدا میں خرچ کرے تو ان کے ایک یا نصف مد کے برابر بھی نہیں ہو سکتا ۔ (الإشارة الى مذهب اهل الحق لامام ابى اسحاق الشيرازى تحت ” ترتیب الصحابة فی الفضل صفحہ 184 تا 188 ، مطبوعة المجلس الاعلى للشئون الاسلامية وزارة الاوقاف)حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمة الله علیہ متوفی ۱۰۵۲ھ فرماتے ہیں : تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم قطعی طور پر جنتی ہیں اس (یعنی ان کو جہنمی کہنے) سے رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تنقیص شان لازم آتی ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پوری انسانیت کی طرف مبعوث فرمایا گیا ان کی راہنمائی فرمانا اور انہیں کفر و ضلالت سے نکالنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت کا مقصد ہے ، اس سے یہ لازم آئے گا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ کرام میں چھ یا سات کے علاوہ سب کے سب ہدایت نہ پا سکے اور نہ ان کا ایمان ہے خاتمہ ہوا ، ایسے کلمات ادا کرنے سے ہم الله تعالی کی پناہ مانگتے ہیں ۔ اس لیے اہل سنت و جماعت کا اجماع ہے کہ ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ تمام صحابہ کرام کا تزکیہ کرے ان کو عادل قرار دے ، ان کو برا بھلا کہنے اور ان پر طعن کرنے سے باز رہے اور ان کی مدح و ستائش کرے ، کیونکہ الله تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کو عادل قرار دیا ہے ان کا تزکیہ کیا اور ان کی تعریف بیان فرمائی ۔ اور اسی کی مثل حضرت شہاب الدین عمر سہروردی رحمة الله علیہ نے اپنی کتاب ” اعلام الہدی ” میں فرمایا : اے خواہش نفس اور تعصب سے پاک لوگو! یہ بات ذہن نشین رکھو کہ صحابہ کرام رضی الله عنہم پاکیزہ نفسی اور صاف دلی کے باوجود انسان تھے ۔ ان کے بھی نفس تھے اور نفسوں کی کچھ صفات ایسی ہیں جو ظاہر ہوتی ہیں ۔ اس لیے اگر ان کے نفسوں سے کوئی ایسی بات ظاہر ہوتی جو دلوں کےلیے ناگوار ہوتی تو وہ دلوں کی طرف رجوع کر کے ان کا فیصلہ مانتے اور نفسانی خواہشات سے کنارہ کشی کرتے ۔۔۔۔(لمعات التنقیح فى شرح مشكاة المصابيح ، العلامة المحدث عبد الحق الدهلوى ، کتاب المناقب ، تحت ” باب مناقب الصحابة ، ، جلد 9 صفحہ 579 ، مطبوعة دار النوادر ، طبع اول ١٤٣۵ھ/۲٠١٤ء)حضرت امام اكمل الدين محمد بن محمد البابرتى رحمة الله عليہ متوفٰی۷۸٦ھ فرماتے ہیں : ہم رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ سے محبت کرتے ہیں اور ان میں کسی ایک کی محبت میں افراط نہیں کرتے ، نہ ہی ان میں کسی سے بیزاری کرتے ہیں ۔ ہم ان سے بغض رکھتے ہیں جو ان سے بغض رکھے اور ان کے بارے میں برا ذکر کرے ۔ ہم ان کا ذکر صرف خیر کے ساتھ کرتے ہیں ۔ ان کی محبت دین ہے ، ایمان ہے اور احسان ہے اور ان کے ساتھ بغض کفر ہے نفاق ہے اور سرکشی ہے ۔ ہم ان سے محبت اس لیے کرتے ہیں کہ الله ان سے راضی وہ الله سے راضی ہیں ۔ اور ان کی شان تورات ، انجیل اور قرآن مجید میں اس طرح بیان فرمائی : محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم الله کے رسول ہیں ، جو ان کے اصحاب ہیں ، کفار پر بہت سخت ہیں ، آپس میں نرم دل ہیں (اے مخاطب) تو ان کو رکوع کرتے ہوئے ، سجدہ کرتے ہوئے دیکھتا ہے ، وہ الله کا فضل اور اس کی رضا طلب کرتے ہیں ، سجدوں کے اثر سے ان کے چہروں پر نشانی ہے ، ان کی یہ صفات تورات میں ہیں ۔ صحابہ کرام نے غلبہ دین اور اعلائے کلمة الله کےلیے پوری کوششیں کیں محبت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں وطن چھوڑے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ٹھکانہ دیا آپ کی نصرت و حمایت کی اور آپ کے سامنے جانبازی کی پس ان کی محبت واجب ہوئی ۔ رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : میرے صحابہ کے معاملہ میں الله سے ڈرو میرے بعد انہیں ہدف تنقید نہ بنانا ، جس نے ان سے محبت کی ، تو اس نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت رکھی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو اس نے میرے ساتھ بعض کی بنا پر ان سے بغض رکھا اور جس نے ان ایذاء پہنچائی ، اس نے مجھے ایذاء پہنچائی ، جس نے مجھے ایذاء پہنچائی ، گویا اس نے الله تعالیٰ کو ایذاء پہنچائی اور جس نے الله تعالی کو ایذاء پہنچائی تو وہ دوزخ کا زیادہ حق دار ہے ۔ یہ کہ ہم اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سے کسی کی محبت میں افراط و غلو نہیں کرتے ۔ کیونکہ کسی چیز میں افراط فساد اور دوسروں کیلئے بغض و عداوت کا موجب ہوتا ہے کیا تم نہیں دیکھتے کہ روافض نے سیدنا علی رضی الله عنہ کی محبت میں افراط و غلو کیا تو حضرت ابو بکر صدیق ، حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان رضی الله عنہم کی تنقیص و عداوت میں پڑ گئے الله تعالی ہمیں اس سے پناہ عطا فرمائے ۔ ان روافض نے حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ کی شان میں الوہیت و نبوت کا دعویٰ کیا ۔ جیسا کہ غالی روافض کا عقیدہ ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ سے فرمایا : تیری وجہ سے دو جماعتیں ہلاک ہوں گی ایک وہ جو بغض میں افراط سے کام لے گی دوسری جو تیری محبت میں غلو کرے گی ۔ اور جیسا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا بھی فرمان ہے بیشک خوارج آپ کے بغض میں افراط سے کام لے کر ہلاک ہوں گے جیسا کہ روافض آپ کی محبت میں غلو کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوئے ۔ جہاں تک ان سے برآت یعنی بیزاری کا تعلق ہے تو یہ کجروی اور گمراہی ہے کیونکہ صحابہ کرام رضی الله عنہم منہج قویم اور دین مستقیم (پختہ اور سیدھے راستے اور دین) پر تھے ہدایت ان کی اقتداء سے وابستہ ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس سلسلہ میں فرمایا : میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں جس کی اقتداء کرو گے ہدایت پا جاؤ گے ۔ لہذا ان سے تبری اور بیزاری عدم اھتداء ہے اور یہی گمراہی ہے ہم ان بدبختوں سے عداوت رکھتے ہیں جو ان سے کینہ اور بغض رکھتے ہیں ۔ دراصل صحابہ کرام سے بغض ان کے دین کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے جو الله تعالی نے ان کیلئے پسند فرمایا اور منتخب کیا ہے ۔ الله تعالی نے فرمایا : اور میں نے اسلام بطور دین تمہارے لئے پسند فرمایا ۔ صحابہ کرام سے بغض ، خبث عقیدہ کی دلیل ہے اور نفاق و فساد کا نتیجہ ہے پس ان لوگوں سے عداوت رکھنا اور برائی سے ان کا ذکر کرنا واجب ہے جو صحابہ کرام سے عداوت رکھتے ہیں ۔ ہم صحابہ کرام رضی الله عنہم کے باہمی اختلافات و مشاجرات میں نہیں پڑتے ان اختلافات کو ہم اجتہاد ہر محمول کرتے ہیں اور ان کاذکر صرف بھلائی سے کرتے ہیں ۔ کیونکہ وہ دین کے اصول یعنی جڑیں ہیں ۔ پس ان میں طعن دراصل دین میں طعن ہے اور ان کی محبت دین ایمان اور احسان ہے اور ان سے بغض اور کینہ کفر نفاق اور طغیان ہے اور یہ سب ضروریات شرع سے ظاہر ہے ۔۔۔(شرح عقيدة اهل السنة و الجماعة ، لامام اكمل الدين محمد بن محمد البابرتى ، تحت ” القول في حب أصحاب رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، صفحہ نمبر 141 تا 142 ، مطبوعة وزارة الاوقاف والشئون الاسلامية سلسلة الرسائل التراثية ، طبع اول ١٤٠٩ه/١٩٨٩ء)حضرت امام شمس الدین ابو عبد اللہ محمد بن احمد بن عثمان الذہبی رحمة الله علیہ متوفی ۷٤٨ه فرماتے : صحیحین میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : الله تعالی فرماتا ہے : جو شخص میرے کسی دوست سے دشمنی کرتا ہے میں اسے لڑائی کا چیلنج کرتا ہوں ۔ اور رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : میرے صحابہ کو گالیاں نہ دو اس ذات کی قسم ! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر تم میں سے کوئی ایک احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تو ان میں سے ایک مد اور اس کے نصف کو نہیں پہنچ سکتا ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : میرے صحابہ کے بارے میں الله تعالی سے ڈرو میرے بعد ان کو نشانہ نہ بنانا پس جس نے ان سے محبت کی اس نے میری وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا ، اور جس نے ان کو تکلیف پہنچائی اس نے مجھے تکلیف پہنچائی ، اور جس نے مجھے تکلیف پہنچائی اس نے الله تعالیٰ کو تکلیف پہنچائی جس نے الله تعالیٰ کو تکلیف پہنچائی عنقریب اس کی گرفت فرمائے گا ۔ اس حدیث اور اس جیسی دوسری احادیث میں ان لوگوں کی حالت بیان کی گئی ہے جنہوں نے رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد صحابہ کرام کو نشانہ بنایا ان کو گالیاں دی ان پر جھوٹ باندھا ، ان کو عیب لگایا ان کو خلافت قرار دیا اور ان پر جرأت کا مظاہرہ کیا ۔ کلمہ ” الله الله ” ڈرانے کے لیے جس طرح اس شخص کو ڈرایا جاتا ہے کہا جاتا ہے ” السار ” یعنی آگ سے بچو اور ڈرو ۔ لا تتخذوهم غرضاً بعدي ” تک یہ عبارت صحابہ کرام کے فضائل مناقب پر دلالت کرتی ہے کیونکہ صحابہ کرام سے محبت کی بنیاد یہ ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ ہیں ۔ انہوں نے آپ کی مدد کی ، آپ پر ایمان لائے ، آپ کی تعظیم کی اور جان و مال کے ذریعے آپ کی غمخواری کی ۔ پس جس نے ان سے محبت کی اس نے رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے محبت کی تو صحابہ کرام کی محبت ، رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت کا عنوان ہے اور ان سے بغض رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بغض کا عنوان ہے صحیح حدیث میں ہے : انصار سے محبت ایمان ہے اور ان سے بغض منافقت سے ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے ایمان میں سبقت کی اور رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے الله تعالی کے دشمنوں سے جہاد کیا ۔ اسی طرح حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ کی محبت ایمان اور ان سے بغض منافقت کی علامت ہے ۔ صحابہ کرام کے فضائل کا علم اس طرح حاصل ہوگا کہ ان کے احول ، سیرتوں اور آثار کا مطالعہ کیا جائے ان میں غور و فکر کیا جائے وہ رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات طیبہ میں ہوں یا آپ کے بعد ۔ ان لوگوں نے ایمان میں سبقت کی اسی طرح کفار سے جہاد کیا ، اشاعت اسلام ، شعائر اسلام کے اظہار ، الله تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کلمہ کو بلند کرنے ، آپ کے بتائے ہوئے فرائض و سنن کی تعلیم میں سبقت کی ۔ اگر یہ نفوس قدسیہ نہ ہوتے تو ہمارے پاس دین کی اصل اور فرع کچھ بھی نہ پہنچتا ، اور ہمیں فرائض و سنن میں سے کسی فرض اور سنت کا علم نہ ہوتا اور نہ ہی ہم احادیث و اخبار علم حاصل کر سکتے ۔ پس جو شخص ان پاکیزہ ذاتوں پر طعن کرے یا ان کو گالی گلوچ کرے تو وہ دین سے نکل گیا اور مسلمانوں کی ملت سے بھی خارج ہوگیا ۔ کیونکہ طعن کی وجہ سے ان کے بارے میں بر عقیدہ رکھنا اور دل میں کینہ رکھنا ہے نیز الله تعالی نے اپنی کتب میں ان کی تعریف میں جو کچھ فرمایا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے فضائل و مناقب اور ن سے محبت کے بارے میں جو کچھ ارشاد فرمایا اس کا انکار کرنا ہے ۔ علاوہ ازیں جو کچھ ہم تک منتقل ہوا ، اس کا سب سے عمدہ وسیلہ صحابہ کرام رضی الله عنہم ہیں اور وسائل میں طعن ، اصل میں طعن ہوتا ہے اور نقل کرنے والے کو حقیر جاننا منقول کو معمولی سمجھنا ہے ۔ یہ بات غور و فکر کرنے والوں کے لیے ظاہر ہے اور اس طرح منافقت اور بے دینی سے بچ سکتا ہے اور تمہارے لیے وہی بات کافی ہے جو احادیث میں آتی ہے جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : الله تعالی نے مجھے پسند فرمایا اور میرے لیے صحابہ کرام کو پسند فرمایا پس میرے لیے ان کو وزیر ، مددگار اور سسرالی بنائے ، پس جو ان کو گالی دے اس پر الله تعالی ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے ۔ قیامت کے دن الله تعالی اس کے کسی فرض اور نفل کو قبول نہیں فرمائے گا ۔ حضرت انس بن مالک رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ کرام میں سے بعض نے کہا کہ ہمیں گالی دی جاتی ہے تو رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جس نے میرے صحابہ کو گالی دی اس پر الله تعالی ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے ۔ اور انہی سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : بے شک الله تعالی نے مجھے پسند فرمایا اور میرے لیے میرے صحابہ کو پسند فرمایا اور میرے صحابہ ، بھائی اور سسرال والے بنائے اور عنقریب ان کے بعد کچھ لوگ آئیں گے جو ان میں عیب نکالیں گے اور ان کی توہین کریں گے ۔ نہ ان کے ساتھ کھانا اور نہ پینا اور نہ ہی ان کے ساتھ نکاح کرنا ، ان کی نماز جنازہ نہ پڑھنا اور ان کے ساتھ مل کر نماز بھی نہ پڑھنا ۔ حضرت عبد الله بن مسعود رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جب میرے صحابہ کا ذکر ہو تو خاموش رہو جب ستاروں کا ذکر ہو تو خاموش رہو اور جب تقدیر کا ذکر ہو تو خاموش رہو ۔ علماء کرام فرماتے ہیں : اس کا مطلب یہ ہے کہ جب مخلوق کے بارے میں تقدیر کے راز پر بحث کو تو خاموش رہو کیونکہ یہ خاموشی ایمان کی علامت ہے اور الله تعالی کے حکم کو تسلیم کرنا ہے ۔ یہی حال ستاروں کا ہے جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ وہ خود عمل کرنے والے ہیں یا ان ستاروں میں ارادۂ خداوندی کے بغیر تاثیر ہے تو وہ مشرک ہے ۔ اسی طرح جو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ کرام کی کسی طرح برائی بیان کرے ، ان کی خامیاں تلاش کرے اور عیب بیان کرے اور ان عیبوں کو ان کی ذواتِ قدسیہ کی طرف منسوب کرے وہ منافق ہے ۔ بلکہ مسلمانوں پر الله تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے محبت واجب ہے ۔ وہ جو کچھ لائے ہیں اور جس حکم کو قائم کرنے کا حکم دیا ہے ، اس سے محبت کرنا نیز آپ کی سیرت و سنت پر عمل کرنے والے ، آپ کی آل ، صحابہ کرام ، آپ کی ازواج مطہرات ، اولاد ، غلاموں اور خادموں سے محبت کرنا بھی ضروری ہے ۔ جو لوگ ان شخصیات سے محبت کرتے ہیں ، ان سے محبت کرنا اور جو ان سے بغض رکھتے ہیں ، ان سے بغض رکھنا بھی ضروری ہے کیونکہ ایمان کی مضبوط رسی الله تعالی کے لیے محبت اور الله تعالی کے لیے بغض ہے ۔ حضرت ابو ایوب سختیانی رضی الله عنہ فرماتے ہیں : جس نے حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ سے محبت کی اس نے دین کا مینار کھڑا کیا ، جس نے حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ سے محبت کی اس نے راستہ واضح کیا ، جس نے حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ سے محبت کی وہ الله تعالی کے نور سے روشن ہوا اور کس نے حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ سے محبت کی اس نے مضبوط رسی کو تھاما اور جا نے صحابہ کرام رضی الله عنہم کے بارے میں اچھی بات کہی ، وہ منافقت سے بری ہوگیا ۔۔۔۔(الکبائر ، لامام شمس الدين محمد بن احمد بن عثمان الذهبي ، تحت ” الکبیرة السبعون : سب أحد من الصحابة رضوان الله عليهم ، ص 236 تا 239 ، مطبوعة دار الندوة الجديدة)(الکبائر ، لامام شمس الدين محمد بن احمد بن عثمان الذهبي ، تحت ” الکبیرة السبعون : سب أحد من الصحابة رضوان الله عليهم ، ص 236 تا 239 ، مطبوعة دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع بيروت) حضرت شیخ اکبر امام ابو بکر محی الدین محمد بن علی المعروف ابن عربی رحمة الله علیہ متوفٰی٦٣٨ه فرماتے ہیں : کاتبین رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےلیے (وحی و دیگر امور کی) کتابت کرنے والے اصحاب رضی الله عنہم حسب ذیل ہیں : 1 ۔ حضرت عثمان 2 ۔ حضرت علی 3 ۔ حضرت ابی بن کعب 4 ۔ حضرت زید بن ثابت 5 ۔حضرت معاویہ 6 ۔ حضرت خالد ابن سعید بن العاص 7 ۔ حضرت ابان بن سعید 8 ۔ حضرت علاء بن الحضرمی 9 ۔ حضرت حنظلہ بن الربیع 10 ۔ حضرت عبد الله بن سعید بن ابی سرح ، حضرت عثمان کے رضاعی بھائی یہ سب اصحاب رضی الله عنہم وحی کے کاتبین تھے ۔ (دیگر امور کے کاتبین کی تفصیل اس طرح ہے) حضرت زبیر بن عوام اور حضرت جہم بن صلت رضی الله عنہما صدقات کے اموال (کا ریکارڈ) تحریر فرماتے تھے ۔ حضرت حذیفہ بن یمان رضی الله عنہ کھجوروں کے حوض لکھ کر شمار فرماتے تھے ، حضرت مغیرہ بن شعبہ اور حضرت حصین بن نمیر رضی الله عنہما مداینات و معاملات تحریر میں لاتے تھے ۔ حضرت شرحبیل بن حسنہ رضی الله عنہ بادشاہوں کے نام خطوط لکھتے تھے حضرت ابو بکر رضی الله عنہ نے سفر ہجرت میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےلیے تحریر کی ۔ (تحت كتابه صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم صفحہ 47 تا 48)خلافت حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی الله عنہما : معاویہ بن سفیان ابن صخر ابن امیہ بن عبد الشمس ابن عبد مناف یہاں رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ ان کی والدہ ھند بنت عتبہ بن ربیعہ بن عبد الشمس ابن عبد مناف سے شجرہ مل جاتا ہے ۔ صلح امام حسن رضی الله عنہ کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کیلئے بیعت ٢۵ ربیع الاول سنہ اکتالیس ھجری کو ہوئی ۔ ان کی مہر و انگوٹھی کا نقش تھا ” رب اغفرلی ” ان کا کاتب (منشی) عبد الله بن اوس الغسانی تھا ۔ جب کہ حاجب ان کا مولی زیاد بن نوف اور قاضی فضالہ بن عبد الله الانصاری تھا ۔ رجب سنہ ساٹھ ہجری میں وفات پائی ، نماز جنازہ ان کے بیٹے یزید نے پڑھائی ۔ ایک اور قول ہے کہ ضحاک بن قیس نے پڑھائی ۔ دمشق شہر میں باب الجابیہ اور باب الصغیر کے درمیان دفن ہوئے ، بوقت وصال ان کی عمر اٹھتر سال ایک دن کم نو مہینے تھی ۔ بیعت خلافت سے پہلے بیس سال سے زائد شام کے گورنر رہے ۔۔(محاضرة الابرار و مسامرة الاخيار الشيخ الاكبر محى الدين ابن عربي ذكر الخلفاء و تاريخ مدتهم خاصة تحت خلافة معاوية بن أبي سفيان رضي الله عنه ، جلد 1 صفحہ 66 مطبوعة دار اليقظة العربيعة طبع عام ١٣٢٤)حضرت امام شهاب الدين احمد بن محمد بن على بن حجر الهيتمى الشافعى رحمة الله علیہ متوفی۹۷٤ھ فرماتے ہیں : حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی الله عنہ سے حضرت علی المرتضی و حضرت امیر معاويہ اور مقتولین صفین رضی الله عنہم کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا : مجھے خوف معلوم ہوتا ہے کہ الله تعالی کے پاس ایسا جواب لے کر جاؤں جس کے بارے میں مجھ سے سوال ہو اور اگر خاموش رہتا ہوں تو اس سے سوال نہ ہوگا تو جس کیساتھ میں مکلف ہوں اس میں مشغول ہونا زیادہ بہتر ہے ۔ (الخيرات الحسان فى مناقب الامام الاعظم ابى حنيفة النعمان ، لامام شهاب الدين احمد بن محمد بن على بن حجر الهيتمى الشافعى الفصل السادس و العشرون و السابع و العشرون فى شيء من حكمه و آدابه صفحہ 140 مطبوعة دار الهدى و الرشاد طبع اول ١٤٢٨ه/٢٠٠٧ء)حضرت امام بدر الدین ابو محمد محمود بن احمد العینی رحمة الله علیہ متوفٰی۸۵۵ھ فرماتے ہیں : اہل سنت کا برحق موقف یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی الله عنہم کے اختلافات سے کنارہ کشی اختیار کی جائے ، ان سے حسن ظن رکھا جائے اور ان کے لیے عذر تلاش کیا جائے ، اور یہ کہ وہ ل
آپ رضی اللّٰه عنہ تقریر و خطابت مہمان نوازی تحمل و بردباری غریب پروری خدمت خلق اطاعت الہٰی خوف الہٰی اتباع سنت تقوی اور پرہیز گاری عاشق رسول ﷺ اور عاشق اہل بیت علیہم الرضوان ہیں۔۔۔۔
سیدنا امیر معاویہ رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ کا یوم وفات 22 رجب المرجب کو ہے آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں رہ کر ان کی صحبت کا شرف حاصل ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کے لئے فرمایا معاویہ تم ضرور جنت میں مجھ سے ملو گے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عشق کا یہ عالم تھا کہ آپ کے تراشے ہوئے گیسوں اور ناخن مبارک اپنے پاس رکھ لیا کرتے ہیں اور وفات سے پہلے وصیت کی کہ یہ تبرکات میری قبر میں میرے ساتھ رکھے جائیں کہ میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشبو محسوس کر سکوں اللہ ان تبرکات کے واسطے میری مغفرت فرما دے سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلا اقامتی ہسپتال دمشق میں قائم کیا جہاز سازی کے کارخانے بنائے اور سب سے پہلی اسلامی بحریہ قائم کر کے اس وقت کی سب سے زبردست رومن بحریہ کو شکست دی سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں ہی سب سے پہلے منجنیق کا استعمال کیا گیا اپ پاشی اور اپ نوشی کے لیے دور اسلامی میں پہلی نہر کھدوائی ڈاک کا جدید اور مضبوط نظام قائم کیا سرکاری احکام پر مہر لگانے اور نقل دفتر میں محفوظ رکھنے کا سسٹم آپ نے بنایا آپ نے دین اخلاق اور قانون کی طرف قانون کی طرح طب اور علم الجراحت کی تعلیم کا انتظام بھی کیا بیت المال سے تجارتی قرضے بغیر اشتراک و نفع کے جاری کر کے تجارت اور سند کو فروغ دیا اور بین الاقوامی معاہدے کیے طرز حکمرانی میں بردباری کا یہ عالم کہ ایک مرتبہ آپ سے ایک ادمی نے سخت کلامی کی مگر اپ نے خاموشی اختیار فرمائی یہ دیکھ کر کسی نے کہا اگر اپ چاہیں تو اسے عبرت ناک سزا دے سکتے ہیں فرمایا مجھے اس بات سے حیا اتی ہے کہ میری ریا میں سے کسی کی غلطی کی وجہ سے میرا حلم یعنی قوت برداشت کم ہو اور ایسا کیسے نہ ہوتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دعا فرمائی تھی کہ اے اللہ امیر معاویہ کے پیٹ کو علم اور حلم سے بھر دے۔۔ آمین یارب العالمین بجاہِ النبی الامین علیه الصلٰوۃ والتسلیم ۔۔۔
یہ مختصر سی تحریر الله و رسول علیه الصلٰوۃ والسلام کی خاطر لکھی۔۔۔۔
مجھے سیدنا امیرِمعاویه رضی اللّٰه عنه سے پیار ھے ان شآءاللّٰه اپنا بیڑہ پار ھے۔۔۔۔
сео компания [url=https://prodvizhenie-sajtov-v-moskve221.ru/]сео компания[/url] .
Основы программирования контроллеров Siemens, пошаговое руководство.
Советы по программированию контроллеров Siemens, методы.
Преимущества TIA Portal в программировании контроллеров Siemens, главные функции.
Типичные ошибки в программировании, возможные подводные камни.
Проектирование автоматизации с контроллерами Siemens, для эффективной работы.
Сравнение контроллеров Siemens, определение.
Лучшие языки программирования для контроллеров Siemens, для повышения эффективности.
Как контроллеры Siemens помогают в автоматизации, для всех сфер.
Современные тенденции в программировании контроллеров Siemens, в ближайшие годы.
Как разработать интерфейс для контроллера Siemens, основные шаги.
Настройка контроллера сименс [url=http://www.programmirovanie-kontroller.ru/#Настройка-контроллера-сименс]http://www.programmirovanie-kontroller.ru/[/url] .
Как добиться гармонии в доме с помощью мебели высшего качества.
Дизайнерская мебель премиум-класса [url=http://www.byfurniture.by]http://www.byfurniture.by[/url] .